میں نے تو درد کو سینے میں چھپا رکھا ہے
جانے کیوں لوگوں نے افسانہ بنا رکھا ہے
تیری آنکھوں سے ہی پیمانہ بھرا کرتے ہیں
ہم کو معلوم ہے مے خانے میں کیا رکھا ہے
گو ترے ساتھ رہے، پر تجھے مل پائے نہیں
جیسے پانی نے کناروں کو جدا رکھا ہے
چاند سے ان کی توجہ کو ہٹانے کے لیے
روشنی ہم نے بھی کی، گھر کو جلا رکھا ہے
وہ حسین شہر میں کچھ روز تو ٹھہرے گا ابھی
بس یہی سوچ کے گھر اپنا سجا رکھا ہے
میں تصور میں ہی دیدار کیۓ لیتا ہوں
عکس کو آنکھ کے پردے میں چھپا رکھا ہے
الطاف بخاری
No comments:
Post a Comment