Monday 13 February 2023

ہم چپ رہے کہ زخم کا چارہ کوئی نہ تھا

 ہم چپ رہے کہ زخم کا چارہ کوئی نہ تھا

کہتے کسی سے کیا کہ ہمارا کوئی نہ تھا

وہ تھی انا کی جنگ برابر لڑی گئی

تھک کر گرے تھے دونوں ہی ہارا کوئی نہ تھا

کچے گھڑے پہ عشق یہ تیرا تو خوب تھا

پہنچا جو منزلوں پہ کنارا کوئی نہ تھا

ویسے تو رتجگوں کی بھی ہوتی رہی جلن

آنکھوں سے اپنی خواب اتارا کوئی نہ تھا

تنہائیوں کے جبر سے تھک ہار کے فرح

سو بار ہم نے تم کو پکارا، کوئی نہ تھا


فرح خان

No comments:

Post a Comment