ہم چپ رہے کہ زخم کا چارہ کوئی نہ تھا
کہتے کسی سے کیا کہ ہمارا کوئی نہ تھا
وہ تھی انا کی جنگ برابر لڑی گئی
تھک کر گرے تھے دونوں ہی ہارا کوئی نہ تھا
کچے گھڑے پہ عشق یہ تیرا تو خوب تھا
پہنچا جو منزلوں پہ کنارا کوئی نہ تھا
ویسے تو رتجگوں کی بھی ہوتی رہی جلن
آنکھوں سے اپنی خواب اتارا کوئی نہ تھا
تنہائیوں کے جبر سے تھک ہار کے فرح
سو بار ہم نے تم کو پکارا، کوئی نہ تھا
فرح خان
No comments:
Post a Comment