Wednesday, 15 February 2023

جب توجہ کوئی ماحول سے ہٹ جاتی ہے

 جب توجہ کوئی ماحول سے ہٹ جاتی ہے

آئینہ ٹوٹتا ہے، روشنی گھٹ جاتی ہے

لوٹ آتا ہوں کہیں چھوڑ کے ویرانے میں

زندگی دوڑ کے آتی ہے، لپٹ جاتی ہے

اس لیے جاگنا پڑتا ہے بہر حال مجھے

آنکھ لگتے ہی یہ دنیا بھی سمٹ جاتی ہے

دل، تِرے بارِ عنایات کا ممنون، مگر

یہ وہ جھولی ہے جو خیرات سے پھٹ جاتی ہے

بس یہی سوچ کے میں ربط گھٹا لیتا ہوں

وہ نہیں ڈوبتی جو ناؤ الٹ جاتی ہے

جس میں وحشت زدہ یادیں بھی دبے پاؤں چلیں

ایسی تنہائی تو آواز سے چھٹ جاتی ہے

آپ اس ہجر کو عادات میں شامل کر لیں

اور ہوتی ہے مصیبت جو پلٹ جاتی ہے

میں بھلا عشق سے بچنے کی دعا کیوں مانگوں

روگ لکتا ہے مگر عمر تو کٹ جاتی ہے

ایک تصویر بنا لیتا ہوں دریا کی ضمیر

کتنے رنگوں میں مِری تشنگی بٹ جاتی ہے


ضمیر قیس

ضمیر حسن

No comments:

Post a Comment