وہ جا رہے تھے حال مِرا جاں کنی کا تھا
اے ہم نشیں یہ وقت بھلا بے رخی کا تھا
راہِ جنوں میں آپ ہی گمراہ ہو گیا
دعویٰ تو راہبر کو مِری راہبری کا تھا
پروانے کو عطا کیا کیوں تُو نے سوزِ عشق
حصہ یہ صرف میری ہی تشنہ لبی کا تھا
کرتا میں کیوں خدائی میں اظہارِ مدعا
اخفائے رازِ عشق، تقاضا خودی کا تھا
جب عشرتِ نگاہ تھیں ان کی تجلیاں
کتنا حسیں وہ دور مِری زندگی کا تھا
غمخوار زندگی میں جو بنتے تو بات تھی
یہ بعدِ مرگ کون سا موقع غمی کا تھا
اب اس کے بعد موت سے بدتر ہے زندگی
مظہر کے ساتھ ہی تو مزا زندگی کا تھا
حافظ مظہرالدین مظہر
No comments:
Post a Comment