Wednesday, 15 February 2023

اب اداسی کا سبب اس کے سوا کیا رہ گیا

 اب اداسی کا سبب اس کے سوا کیا رہ گیا 

تُو بھی تنہا رہ گیا اور میں بھی تنہا رہ گیا 

رات کے پچھلے پہر جب لکڑیاں جل بجھ گئیں 

برف پڑنے لگ گئی،  قصہ ادھورا رہ گیا 

چاند شب بھر جھیل کے پانی میں غوطہ زن رہا 

دور اک سہما ستارہ جلتا بجھتا رہ گیا 

اک پری اتری زمیں پر اور خوشبو لے اڑی 

اور اک تتلی کا چہرہ زرد ہوتا رہ گیا 

روشنی جی! کس نگر جا کر ہوئی آباد تُو

میں سیہ غاروں میں تیری راہ تکتا رہ گیا 

ایک عرصہ میں نے اپنی روح کو زخمی کیا 

اور پھر اک عمر اپنے زخم گنتا رہ گیا 

اک ہجومِ پُر تجسس تھا طلسمِ زیر بار

صرف میں وہ کاسنی زینے اترتا رہ گیا 

پھول چُننے والیاں سب پھول چُن کے چل پڑیں 

اب فقط کھلیان میں تنہا بجوکا رہ گیا


ذیشان مرتضیٰ

No comments:

Post a Comment