کثیر قومی اور آزاد کمپنی کے غلام
یہ نو سے پانچ تک اک دفتری گھڑی کے غلام
بڑے اداروں سے تعلیم یافتہ، خوش پوش
بہت نفیس ہیں، اکیسویں صدی کے غلام
میں اِن کو حکم سناتا ہوں اُس کے حکم کے بعد
مِرے غلام بھی ہیں اصل میں اُسی کے غلام
تبھی کنیز کی چیخیں جگا نہ پائیں اُنہیں
کہ سو رہے تھے مشقت کے جام پی کے غلام
ہمیں بھی کوئی دِکھا دے، اجل کی خفیہ سرنگ
فرار ہوتے ہیں جس میں سے زندگی کے غلام
پڑھا کلامِ فرید، اور مجھ ایسے پنجابی
بہ صد نیاز ہوئے اک سرائیکی کے غلام
کسی کے باپ کے نوکر نہیں کہ حکم سنیں
بس اپنی مرضی کے مالک ہیں ہم علیؑ کے غلام
عمیر نجمی
No comments:
Post a Comment