Wednesday, 15 February 2023

نہیں ہے ظرف یہاں اتنا ہر کسی کے پاس

 نہیں ہے ظرف یہاں اتنا ہر کسی کے پاس

کہ سایہ بانٹے اگر ہے شجر کسی کے پاس

ہر ایک شخص خدا کے دئیے پہ راضی ہے

ہے لامکانی کہیں پر، تو گھر کسی کے پاس

تھے میرے خواب امانت تھے کسی کی آنکھوں میں

میں گروی رکھ کے چلی آئی زر کسی کے پاس

یہ سب ظروف لبا لب بھرے ہیں نفرت سے

تو کیا خلوص نہیں ہے اِدھر کسی کے پاس؟

بصارتیں ہیں میسر، بصیرتوں کے بغیر

نہیں ہے دیکھنے والی نظر کسی کے پاس

تمہیں تو زیست بڑے فائدے کی چیز رہی

یہاں خسارے رہے عمر بھر کسی کے پاس


کومل جوئیہ

No comments:

Post a Comment