نہیں ہے ظرف یہاں اتنا ہر کسی کے پاس
کہ سایہ بانٹے اگر ہے شجر کسی کے پاس
ہر ایک شخص خدا کے دئیے پہ راضی ہے
ہے لامکانی کہیں پر، تو گھر کسی کے پاس
تھے میرے خواب امانت تھے کسی کی آنکھوں میں
میں گروی رکھ کے چلی آئی زر کسی کے پاس
یہ سب ظروف لبا لب بھرے ہیں نفرت سے
تو کیا خلوص نہیں ہے اِدھر کسی کے پاس؟
بصارتیں ہیں میسر، بصیرتوں کے بغیر
نہیں ہے دیکھنے والی نظر کسی کے پاس
تمہیں تو زیست بڑے فائدے کی چیز رہی
یہاں خسارے رہے عمر بھر کسی کے پاس
کومل جوئیہ
No comments:
Post a Comment