اپنے باقی ماندہ پتھر میری قبر پہ دھرنے آئے
زیست پہ احساں کرنے والے موت پہ احساں کرنے آئے
کیسی حکمت کیسی دانش بے مقصد تخلیق ہوئی
اس دنیا میں آنے والے آئے کیوں بس مرنے آئے
سارے رنگ دھنک کے آ کر تیری آنکھ میں ڈوب گئے
شوخ تخیل، کومل عنواں میرے پاس نکھرنے آئے
لاکھ شعاعیں بانٹے لیکن سورج کا نقصان نہیں
میرے خواب ثمر ہیں تازہ کوئی جھولی بھرنے آئے
کون آیا سنگین چٹانیں کس کی خاطر چٹخ گئیں
کس کے استقبال کی خاطر ان آنکھوں میں جھرنے آئے
سید نصیر شاہ
No comments:
Post a Comment