عدد محبت کے چار ہیں اور
چاروں جانب سے گھر چکی ہوں
کہیں اداسی کی بدحواسی
کہیں دکھوں کا ہے پیرہن سا
کہیں غموں کا اداس موسم
کہیں پہ پت جھڑ اذیتوں کا
کہ باد صر صر چلی ہے ایسی
کہ جیسے صحرا کی ریت تپتی
یہ تیرے ہجراں کی زرد رنگت
ہماری صورت اجاڑتی ہے
بس ایک یادوں کا ہے سہارا
کہ بارہا خواب کو پکارا
مگر یہ آنکھوں میں رتجگے سے اتر چکے ہیں
رگوں میں سانسوں کے بلبلے جیسے مر چکے ہیں
عائشہ صدیقہ
No comments:
Post a Comment