دُعائیں دوں گا بچاؤ میں خُشک ہو رہا ہوں
پرندو! مالی بُلاؤ میں خشک ہو رہا ہوں
بڑی تمنا تھی بھرتا ہوا تمہیں دیکھوں
سلوکِ یار کے گھاؤ میں خشک ہو رہا ہوں
اٹھا دیا انہیں کہہ کر کہ اپنی حرص کی خاک
مِری جڑوں سے ہٹاؤ، میں خشک ہو رہا ہوں
نہیں خفا میرے سائے میں بیٹھنے والو
جسے بھی جانا ہے جاؤ میں خشک ہو رہا ہوں
مِرے بہاؤ سے گھبرا کے کیوں پلٹتی ہو
میں کہہ رہا ہوں نہاؤ، میں خشک ہو رہا ہوں
تمہارے تختے سلامت رہیں، خدا حافظ
اے مجھ پہ تیرتی ناؤ میں خشک ہو رہا ہوں
کہانی کار نے اک دم اداس ہو کے کہا
بُجھا دو مہر! الاؤ، میں خشک ہو رہا ہوں
مہر فام
No comments:
Post a Comment