غزل کا مطلع سنوار لیتے ہیں آؤ بالوں سے بالیوں سے
سجیلے ماتھے کے سُرخ ٹیکے سے اور ہونٹوں کی لالیوں سے
پُرانے کیمپس کے پیڑ ہاتھوں کا لمس پانے کے منتظر ہیں
وہ شخص چھُو چھُو کے سبز کرتا تھا پھول جھڑتے تھے ڈالیوں سے
یہ رسمِ تازہ گلاب پاشی بھی چیر دیتی ہے گُل کا سینہ
کہ پھول مٹی میں رول دیتے ہیں لوگ چُن چُن کے تھالیوں سے
مجاورانِ مزارِ اُلفت سے لوگ پوچھیں گے دفن کیا ہے؟
تو پیر و مرشد میں کیا بتاؤں گا کیا کہوں گا سوالیوں سے
ہم ایسے ویسوں کے حرفِ گریہ پہ داد دیتے ہیں آپ صاحب
ہماری وحشت کا بھاؤ بڑھتا ہے آپ لوگوں کی تالیوں سے
عاطف جاوید عاطف
No comments:
Post a Comment