نظر کھوئی نظارے میں نظارو باخبر رہنا
وہ گُل روٹھا بہاروں میں بہارو! باخبر رہنا
زباں پر جب جڑے تالے زمانے کے خداؤں نے
نگاہوں نے چھڑی باتیں اشارو! باخبر رہنا
اری اے جوئے مضطر! تُو اکیلی ہی نہیں گریاں
رواں میں بھی تو ہوں باہم فوارو! باخبر رہنا
شبِ فرقت کی ویرانی میں اکثر جاگ کر تنہا
گِنا کرتا ہوں میں تم کو ستارو! باخبر رہنا
کشاکش سے بھری اس زندگانی کی مسافت میں
میں ہر دم بے سہارا ہوں سہارو! باخبر رہنا
اٹھی جب یار کی ڈولی تمہارے ساتھ ہی تو تھا
وہ خوش تھا میں بہت رویا کہارو! باخبر رہنا
تلاطم خیز موجوں سے لڑا کر کشتیاں آفاق
لو اب ساحل پہ ڈوبا ہے کنارو! باخبر رہنا
آفاق دلنوی
آفاق احمد راتھر
No comments:
Post a Comment