کلفٹن کے ساحل پہ دیکھا تھا اس کو
سمندر میں چاندی سے پاؤں ڈبوئے
وہ سونا بناتی ذرا مسکراتی
کسی اور دنیا سی آئی ہوئی مہ جبیں لگ رہی تھی
زمانے کی ساری حسیں لڑکیوں سے حسیں لگ رہی تھی
عجب ساحرہ تھی
وہ پانی میں پاؤں ہلاتی
تو پازیب سے دلنشیں سی کھنک بننے لگتی
ہواؤں سے آنچل ذرا اُڑنے لگتا
دھنک بننے لگتی
عجب ساحرانہ سا پُر نور منظر بنا جا رہا تھا
سمندر کا پانی تو قدموں میں جیسے بِچھا جا رہا تھا
وہ ہاتھوں سے پانی ہوا میں اُڑاتی
تو لگتا ستارے بنانے لگی ہے
وہ پاؤں سے چھینٹے اُڑاتی تو لگتا
قسم سے سمندر اُڑانے لگی ہے
ہوا میں اُڑا پانی کا ایک قطرہ
گلابی سے ہونٹوں پہ ایسے رُکا تھا
قسم سے زمانہ وہیں تھم گیا تھا
میثم علی آغا
No comments:
Post a Comment