محبت
محبت خود اپنے لیے جسم چنتی ہے
اور جال بنتی ہے ان کے لیے
جو یہ آگ اپنے سینوں میں بھرنے کو تیار ہیں
گھٹ کے جینے سے بیزار ہوں
محبت کبھی ایک سے
یا کبھی ایک سو ایک لوگوں سے ہونے کا
اعلان اک ساتھ کرتی ہے
اس میں کہیں عمر کی جنس کی کوئی قدغن نہیں
محبت کسی بنچ پر ایک مرد اور عورت میں
کھائی ہوئی اک ادھوری قسم ہے
محبت میں مر جانا مرنا نہیں
محبت تو خود ہی محبت کا پونر جنم ہے
محبت کسی راہبہ کی کلائی سے اتری ہوئی چوڑیوں کی کھنک ہے
محبت کسی ایک مردہ ستارے کو خیرات میں ملنے والی چمک ہے
محبت پہ شک تو خود اپنے ہی ہونے پہ شک ہے
محبت تو محبوب کے قدوقامت سے جنمی ہوئی علامت ہے اور
تیز بارش میں سہمے ہوئے ہاتھیوں پر بڑی چھتریوں کی طرح ہے محبت
سرد ملکوں میں واپس پلٹتے ہوئے اپنے زخمی پروں سے
خلا میں لہو کی لکیریں بناتی ہوئی کونج ہے مونجھ ہے
اور دل کی زمینوں کو سیراب کرتی ہوئی نہر ہے
قہر ہے، زہر ہے، جو رگوں میں اتر کر
بدن کو اداسی کے اس شہر میں مار کر خیرآباد کہتی ہو
جو کیلونو نے بس ذہن میں ہی تصور کیا تھا
مسجدوں میں سپاروں کو سینوں میں محفوظ کرتے ہوئے
بچیوں کو خدا سے ڈراتے ہوئی مولوی کا مکر ہے
محبت
کلیساؤں میں روسی اخروٹ کی لکڑیوں سے بنی کرسیوں پر
بزرگوں کی آنکھوں میں مرنے کا ڈر ہے محبت
محبت ذہینوں پہ کھلتی ہے
اس کو غبی کند ذہنوں سے کوئی علاقہ نہیں
محبت کو کیا کوئی اپنا ہے یا غیر ہے
آدمی اس میں سب کچھ لٹا کے بھی کہتا ہے
چل خیر ہے
تہذیب حافی
No comments:
Post a Comment