Sunday, 12 February 2023

محبت خود اپنے لیے جسم چنتی ہے

 محبت


محبت خود اپنے لیے جسم چنتی ہے

اور جال بنتی ہے ان کے لیے 

جو یہ آگ اپنے سینوں میں بھرنے کو تیار ہیں

گھٹ کے جینے سے بیزار ہوں 

محبت کبھی ایک سے 

یا کبھی ایک سو ایک لوگوں سے ہونے کا 

اعلان اک ساتھ کرتی ہے 

اس میں کہیں عمر کی جنس کی کوئی قدغن نہیں

محبت کسی بنچ پر ایک مرد اور عورت میں 

کھائی ہوئی اک ادھوری قسم ہے 

محبت میں مر جانا مرنا نہیں 

محبت تو خود ہی محبت کا پونر جنم ہے

محبت کسی راہبہ کی کلائی سے اتری ہوئی چوڑیوں کی کھنک ہے 

محبت کسی ایک مردہ ستارے کو خیرات میں ملنے والی چمک ہے 

محبت پہ شک تو خود اپنے ہی ہونے پہ شک ہے 

محبت تو محبوب  کے قدوقامت سے جنمی ہوئی علامت ہے اور 

تیز بارش میں سہمے ہوئے ہاتھیوں پر بڑی چھتریوں کی طرح ہے محبت  

سرد ملکوں میں واپس پلٹتے ہوئے اپنے زخمی پروں سے 

خلا میں لہو کی لکیریں بناتی ہوئی کونج ہے مونجھ ہے

اور دل کی زمینوں کو سیراب کرتی ہوئی نہر ہے

قہر ہے، زہر ہے، جو رگوں میں اتر کر 

بدن کو اداسی کے اس شہر میں مار کر خیرآباد کہتی ہو 

جو کیلونو نے بس ذہن میں ہی تصور کیا تھا

مسجدوں میں سپاروں کو سینوں میں محفوظ کرتے ہوئے

بچیوں کو خدا سے ڈراتے ہوئی مولوی کا مکر ہے

محبت 

کلیساؤں میں روسی اخروٹ کی لکڑیوں سے بنی کرسیوں پر 

بزرگوں کی آنکھوں میں مرنے کا ڈر ہے محبت 

محبت  ذہینوں پہ کھلتی ہے 

اس کو غبی کند ذہنوں سے کوئی علاقہ نہیں 

محبت کو کیا کوئی اپنا ہے یا غیر ہے 

آدمی اس میں سب کچھ لٹا کے بھی کہتا ہے

چل خیر ہے


تہذیب حافی

No comments:

Post a Comment