رائیگانی
پری زاد تیرے تصور میں اب بھی سفر کر رہا ہوں
چلا جا رہا ہوں
کسی ایسی منزل کی جانب رواں ہوں
کہ جس سے مِرے خواب کا اب کوئی بھی تعلق نہیں ہے
مِری آنکھ کے نور سے اس کی نیلی شعاعیں ذرا بھی نہیں ملتی جھلتیں
مگر میں رواں ہوں
پری زاد تجھ کو خبر ہے سفر کی تھکن سے بدن کس قدر ٹوٹتا ہے
کہ رگ رگ میں کیسے لہو دوڑتا ہے
تجھے کیا خبر
سانس سے سانس کی ڈور بھی ٹوٹتی ہے
مگراے پری زاد صحرا نوردی کہاں چھوٹتی ہے
میں دشت جنوں میں سفر کر رہا ہوں
شجاعت سحر جمالی
No comments:
Post a Comment