Thursday, 1 June 2023

پری زاد تیرے تصور میں اب بھی سفر کر رہا ہوں

 رائیگانی


پری زاد تیرے تصور میں اب بھی سفر کر رہا ہوں

چلا جا رہا ہوں  

کسی ایسی منزل کی جانب رواں ہوں

کہ جس سے مِرے خواب کا اب کوئی بھی تعلق نہیں ہے 

مِری آنکھ کے نور سے اس کی نیلی شعاعیں ذرا بھی نہیں ملتی جھلتیں 

 مگر میں رواں ہوں 

پری زاد تجھ کو خبر ہے سفر کی تھکن سے بدن کس قدر ٹوٹتا ہے

کہ رگ رگ میں کیسے لہو دوڑتا ہے 

تجھے کیا خبر

سانس سے سانس کی ڈور بھی ٹوٹتی ہے

مگراے  پری زاد صحرا نوردی کہاں چھوٹتی ہے

میں دشت جنوں میں سفر کر رہا ہوں


شجاعت سحر جمالی

No comments:

Post a Comment