موت کی ہتھیلی پہ لکھی نظم
تنہائی کی رات
جب ہم اپنی عورتوں کے ناف چومتے ہیں
تو خوابوں میں اس کے پیٹ پھٹنے لگتے ہیں
ہم اپنے خواب واپس مانگتے ہیں
اور ہمیں بدلے میں بوسے دئیے جاتے ہیں
آج تک کوئی بھی سانحہ میرے بوسے لے کر مطمئن نہیں ہوا
اب کی بار ہمبستری کے دوران
ہمیں ایک دوسرے کے بدن نوچ لینے چاہیں
تنہائی کی رات
جب زندگی کے نوحیز بدن کو نوچنے کی پاداش میں
مجھے نوحے لکھنے سے دستبردار کیا جائے گا
تب میں اپنی آنکھوں کا نوحہ لکھوں گا
میں ان دیواروں کا نوحہ لکھوں گا
جن کو میں نے خاموش رہنا سکھایا
میں ان عورتوں کا نوحہ لکھوں گا
جن کی آنکھیں اس کی چھاتیوں میں ہیں
میں نوحہ لکھوں گا
کہ آنکھیں ابال کر کھانے والے لوگ
اپنی جیب کا نوحہ کیوں نہیں لکھتے
میں لکھوں گا کہ ایک بھرپور قہقہہ
اداسی کا حمل نہیں گرا سکتا
ایک ریل کی پٹری کبھی پوری انسانیت کو نہیں کچلتی
اور بھوک کبھی مٹی میں دفن نہیں ہو سکتی
اور آخر کار نوحے لکھنے کی دہشت سے
میری آنکھیں بوڑھی پڑ جائیں گی
اور میرے خوابوں میں سانپ چھوڑ دئیے جائیں گے
تب میں اپنی نظموں سے باہر نکل کر کہیں کھو جاؤں گا
اس کے بعد مجھے بھوک کی کتاب میں ڈھونڈا جائے گا
مگر میں کہیں نہیں ملوں گا
کیونکہ دکھ کھوجنے والے کتے
میری بُو سونگھ کر پاگل ہو جاتے ہیں
ولید سورانی
No comments:
Post a Comment