Friday, 2 June 2023

موت کی ہتھیلی پہ لکھی نظم

 موت کی ہتھیلی پہ لکھی نظم 


تنہائی کی رات 

جب ہم اپنی عورتوں کے ناف چومتے ہیں 

تو خوابوں میں اس کے پیٹ پھٹنے لگتے ہیں 

ہم اپنے خواب واپس مانگتے ہیں 

اور ہمیں بدلے میں بوسے دئیے جاتے ہیں 

آج تک کوئی بھی سانحہ میرے بوسے لے کر مطمئن نہیں ہوا 

اب کی بار ہمبستری کے دوران 

ہمیں ایک دوسرے کے بدن نوچ لینے چاہیں 

تنہائی کی رات

جب زندگی کے نوحیز بدن کو نوچنے کی پاداش میں 

مجھے نوحے لکھنے سے دستبردار کیا جائے گا 

تب میں اپنی آنکھوں کا نوحہ لکھوں گا

میں ان دیواروں کا نوحہ لکھوں گا

جن کو میں  نے خاموش رہنا سکھایا 

میں ان عورتوں کا نوحہ لکھوں گا

جن کی آنکھیں اس کی چھاتیوں میں ہیں 

میں نوحہ لکھوں گا

کہ آنکھیں ابال کر کھانے والے لوگ 

اپنی جیب کا نوحہ کیوں نہیں لکھتے 

میں لکھوں گا کہ ایک بھرپور قہقہہ 

اداسی کا حمل نہیں گرا سکتا 

ایک ریل کی پٹری کبھی پوری انسانیت کو نہیں کچلتی 

اور بھوک کبھی مٹی میں دفن نہیں ہو سکتی 

اور آخر کار نوحے لکھنے کی دہشت سے 

میری آنکھیں بوڑھی پڑ جائیں گی 

اور میرے خوابوں میں سانپ چھوڑ دئیے جائیں گے 

تب میں اپنی نظموں سے باہر نکل کر کہیں کھو جاؤں گا 

اس کے بعد مجھے بھوک کی کتاب میں ڈھونڈا جائے گا 

مگر میں کہیں نہیں ملوں گا 

کیونکہ دکھ کھوجنے والے کتے 

میری بُو سونگھ کر پاگل ہو جاتے ہیں


ولید سورانی

No comments:

Post a Comment