کیسی نظروں سے تکتے ہو تم بھی نا
پھر انجان سے بن جاتے ہو تم بھی نا
وصل کی خواہش سے لبریز تمہارا دل
پھر بھی جانے کا کہتے ہو تم بھی نا
جذبوں کا طوفان چھپا ہے سینے میں
لیکن پھر بھی چپ رہتے ہو تم بھی نا
دل کی بات لبوں پر لے آتے ہو تم
لیکن بات بدل دیتے ہو تم بھی نا
شاعرہ ہونے پر تم میرے خوش نہیں پر
دل ہی دل میں خوش ہوتے ہو تم بھی نا
جانے والا آ نہیں سکتا پتہ بھی ہے
پھر بھی رستہ دیکھ رہے ہو تم بھی نا
اندر کا پگھلاؤ آنکھ سے بہہ نکلا
لیکن پتھر بنے ہوئے ہو تم بھی نا
حنا علی
No comments:
Post a Comment