قصور وار ہیں اے بت جو تجھ سے الفت کی
بہت بُرا کیا، بے شک بڑی حماقت کی
وہ کہتے ہیں نہ ملیں گے مِرے خلاف گواہ
خدا کے سامنے تُو نے اگر شکایت کی
حنا بھی ڈر سے تِرے ہاتھ چُھو نہیں سکتی
کچھ انتہا بھی ہے ظالم تِری نزاکت کی
اب آہِ سرد سے ہے کام رات دن دل کو
ہوا لگی ہے اسے کوچۂ محبت کی
بلا نصیب نہ مجھ سا بھی ہو کوئی گستاخ
جھلک ہے نورِ سحر میں بھی شامِ فرقت کی
گستاخ رامپوری
No comments:
Post a Comment