خواب دیدۂ مہ تاب میں رکھا ہوا ہے
اک جہاں ہے جو گرداب میں رکھا ہوا ہے
اس کے جسم کی ہر قوس نشیلی سی ہے
اک سبھاؤ ہے، مے ناب میں رکھا ہوا ہے
چاندنی تو اتر آئی ہے ان کے رُخ پر
چاند کو میں نے آداب میں رکھا ہوا ہے
عزمِ سجدہ سے بولنے لگتا ہے وہ اب
کیا جنوں تُو نے محراب میں رکھا ہوا ہے
شوقِ وصل میں مقبول لیے پھرتا ہوں
یہ فسوں بھی تو اسباب میں رکھا ہوا ہے
مقبول حسین سید
No comments:
Post a Comment