ایسا نہیں ہوتا، کبھی ویسا نہیں ہوتا
در اصل مقدر میں وہ لکھا نہیں ہوتا
اے غُربتِ جاں کیسے تجھے سب سے چھپاؤں
کپڑے نہیں ہوتے، کبھی جوتا نہیں ہوتا
وہ رات مِری ذات میں شامل ہی نہیں ہے
جس رات تِری بانہوں کا تکیہ نہیں ہوتا
ہر شخص سے ہو سکتا ہے اک شخصی تعلق
ہر شخص میاں! ذات کا حصہ نہیں ہوتا
اس وقت کے پہیے کی عجب چال ہے اس میں
خواہش نہیں ہوتی، کبھی پیسہ نہیں ہوتا
جس پیڑ کی شاخیں نہ ثمر ہو نہ ہی سایہ
اس پیڑ پہ کوئی بھی پرندہ نہیں ہوتا
فُرصت سے اسے دیکھوں گا میں پاس بٹھا کر
کشمیر میں ہائے مِرا جانا نہیں ہوتا
کیا نور بھرا ہے کہ تِری آنکھ میں جب تک
تُو دیکھ نہ لے دل میں اُجالا نہیں ہوتا
وحید اسد
No comments:
Post a Comment