قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
ٹھہرو تیوری کو چڑھائے ہوئے جاتے ہو کدھر
دل کا صدقہ تو ابھی سر سے اتر جانے دو
منع کیوں کرتے ہو عشق بت شیریں لب سے
کیا مزے کا ہے یہ غم دوستو، غم کھانے دو
ہم بھی منزل پہ پہنچ جائیں گے مرتے کھپتے
قافلہ یاروں کا جاتا ہے اگر جانے دو
ایک عالم نظر آئے گا گرفتار تمہیں
اپنے گیسوئے رسا تا بہ کمر جانے دو
گر محبت ہے تو وہ مجھ سے پھرے گا نہ کبھی
غم نہیں ہے مجھے غماز کو بھڑکانے دو
واعظوں کو نہ کرے منع نصیحت سے کوئی
میں نہ سمجھوں گا کسی طرح سے سمجھانے دو
رنج دیتا ہے جو وہ پاس نہ جاؤ سیاح
مانو کہنے کو مِرے دور کرو جانے دو
میانداد خاں سیاح
میاں داد خاں سیاح
No comments:
Post a Comment