گھومتا ہے مگر نہ جائے کہیں
وہ تہی دست مر نہ جائے کہیں
آؤ، راہوں سے خار چُنتے ہیں
سوختہ دل گُزر نہ جائے کہیں
چند گھڑیاں ہیں پیار کر لے دوست
بے وفا دل مُکر نہ جانے کہیں
سامنے ہو تو خوف آتا ہے
آنکھ ہی سے گُزر نہ جانے کہیں
اس سے مِلتا ہوں کم سے کم اختر
دل ہے چھوٹا سا بھر نہ جانے کہیں
واصف اختر
No comments:
Post a Comment