Sunday, 17 December 2023

گھومتا ہے مگر نہ جائے کہیں

 گھومتا ہے مگر نہ جائے کہیں

وہ تہی دست مر نہ جائے کہیں

آؤ، راہوں سے خار چُنتے ہیں

سوختہ دل گُزر نہ جائے کہیں

چند گھڑیاں ہیں پیار کر لے دوست

بے وفا دل مُکر نہ جانے کہیں

سامنے ہو تو خوف آتا ہے

آنکھ ہی سے گُزر نہ جانے کہیں

اس سے مِلتا ہوں کم سے کم اختر

دل ہے چھوٹا سا بھر نہ جانے کہیں


واصف اختر

No comments:

Post a Comment