مِری آنکھوں کے سمندر بھی اُتر سکتے ہیں
ٹُوٹ کر خواب مِرے یوں بھی بکھر سکتے ہیں
وہ اگر پیار سے دیکھیں تو وہ کر سکتے ہیں
ہم اگر جان سے چاہیں تو گُزر سکتے ہیں
کیا ضروری ہے مجھے جان سے جانا ہو گا
زُلف کے خمِ تر ایسے بھی سنور سکتے ہیں
نبض چلتی ہے کلائی میں نئے درد کے ساتھ
کاسۂ دل میرے دھڑکن سے بھی بھر سکتے ہیں
جن کے بچوں کو نشانہ ہے بنایا شرجی
جیتے جیتے میں وہی لوگ تو مر سکتے ہیں
شرجیل اعزاز شرجی
No comments:
Post a Comment