عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
زندگی دیتا ہے، جینے کی ادا دیتا ہے
نُکتہ سنجوں کو وہی ذہنِ رسا دیتا ہے
کینوس اُس کی زمین اور فلک دونوں ہیں
وہ کہیں رنگ، کہیں نُور سجا دیتا ہے
اُس کو معلوم ہے تخلیق کے اسرار و رموز
قطرۂ آب پہ تصویر بنا دیتا ہے
پرِ طاؤس کو رنگوں سے مزّین کر کے
رقص کا شوق بھی اس کے دل میں جگا دیتا ہے
اُس کو زیبا ہے کہ ہر شے میں ہو جلوہ اُس کا
چشمِ پُر آب کو آئینہ بنا دیتا ہے
میں تو واقف نہیں اُس دشت کی بستی سی ابھی
دُور سے کون بھلا مجھ کو صدا دیتا ہے؟
شمع نے ہاتھ اُٹھائے ہیں اُٹھائے رکھیے
مانگنے والوں کو حد سے سوا دیتا ہے
شمع ظفر مہدی
No comments:
Post a Comment