خدا سن اے خدا سن
وہ جو میری زندگی کی پینٹنگ
تُو نے بنا رکھی ہوئی تھی نا
وہ کسی شررارتی بچے کے ہاتھ لگ گئی ہے
وہ بچہ اس پینٹنگ سے برش
اور کلر لے کے کھیلنے میں لگا ہوا ہے
اس نے میرے آنگن کے ہرے پتوں پر پیلا رنگ ڈال دیا ہے
گھاس پر سفید رنگ ڈال کر اس کو خراب کردیا ہے
میرے آنگن کے بیچوں بیچ جو صاف پانی کا فوارا تھا نا
اس میں اس نے ڈھیر ساری کائی ملا دی ہے
میرے گھر کی کھڑکی کے دو خانوں کے شیشوں کو
اس نے توڑ دیا ہے
میرے گھر کے سبھی آئینوں پر اس نے سفید رنگ کر دیا ہے
مجھے خود سے بات کیۓ ایک عرصہ ہو چلا ہے
میرے گھر کے سبھی بلبوں پر اس نے کالا رنگ کر دیا ہے
روشنی مجھ تک پہنچ ہی نہیں پاتی
میں ایک عرصے سے اندھیرے میں رہ رہا ہوں
خدا شاید اس نے میرے گھر کی چھت پر ایک دراڑ بنائی ہے
جس سے برسات میں پانی لگاتار ٹپکتا رہتا ہے
خدا شاید اس نے غلطی سے میرے اوپر پانی گرا دیا ہے
میرا رنگ پھیکا پڑ چکا ہے
کاجل پھیل چکا ہے، بال بکھر چکے ہیں
اے خدا مجھے تجھ سے شکایت ہے کہ
تُو نے میری پینٹنگ سنبھال کر کیوں نہیں رکھی
یہ پینٹنگ اس بچے کے ہاتھ لگی تو لگی کیسے؟
پر چھوڑ اب یہ بتا کہ اس پینٹنگ کے سبھی رنگوں کو
صاف کر کے دوبارہ بنایا جا سکتا ہے؟
اگر نہیں تو اس پینٹنگ کو جلا ڈال
مجھ کو یہ پینٹنگ پسند نہیں
منسوب بر شرجیل احمد
No comments:
Post a Comment