Monday 18 December 2023

تجارت تو تماشہ گاہ میں پھولوں کی ہوتی ہے

 کیٹ واک


تلاطم خوشبوؤں کا آ رہا ہے

وہ لشکر آہوؤں کا آ رہا ہے

بُت طناز ہر کوئی بڑے ہی ناز سے یوں چل رہا ہے

کہ جیسے بے خبر ہو اس حقیقت سے

نظر اس کی کہاں ہے، پیر پڑتے ہیں کہاں پر

روشنی کے آبشاروں میں

تکونیں، زاویے، خط، دائرے، قوسیں

خطوں کے باہمی قط و تقاضے

نواسوں کی کٹائی میں بدن ڈالے ہوئے ہیں

تماشہ گاہ کی نظریں کہاں جا کر اٹکتی ہیں

کہاں جا کر پھسلتی ہیں

لچکتی شاخ پھولوں کی بخوبی اس سے واقف ہے

کہ اس کے پیرہن میں پُھول کتنے ہیں

تجارت تو تماشہ گاہ میں پُھولوں کی ہوتی ہے


ڈاکٹر ضیاءالرشید

No comments:

Post a Comment