Monday 1 January 2024

کوئی نہیں جو نکلتے ہوئے کہے گھر سے

 کوئی نہیں جو نکلتے ہوئے کہے گھر سے

خدا بچائے تجھے حاسدین کے شر سے

میں ماں کی قبر پہ جا کر سلام کرتا ہوں

تو مجھ کو تھامنے آتے ہیں ہاتھ اندر سے

ہوا جو عشق میں ناکام، تو کہا خود سے

خدا کا شکر کہ یہ بھی بلا ٹلی سر سے

میں ایک وقت میں مقتول بھی ہوں قاتل بھی

کہ میرے خواب بھی ٹوٹے ہیں میرے پتھر سے

خدا کے بعد تو میرے لیے خدا ہے تُو

کہی یہ بات اسے اور اٹھ گیا در سے 

کوئی تو پھول مِرے واسطے کھلے انجم

کوئی گھٹا تو مِرے واسطے یہاں برسے


منیر انجم

No comments:

Post a Comment