سراغ منزل کا پانے والے کہاں گئے ہیں
مجھے دو راہے پہ لانے والے کہاں گئے ہیں
وہ جن روپوں میں ہزارہا درجہ برکتیں تھیں
نہ جانے وہ سولہ آنے والے کہاں گئے ہیں
بُلاؤ اُن کو کہ آ کے وہ بھی تماشہ دیکھیں
مجھے وہ بادل بنانے والے کہاں گئے ہیں
کہاں گئے ہیں وہ لوگ شوقین خُوشبوؤں کے
بنا کے صندل جلانے والے کہاں گئے ہیں
یہ لوگ فاقوں سے مر رہے ہیں، تمہیں خبر ہے
نظامِ ہستی چلانے والے کہاں گئے ہیں
نہیں پتا تھا کہ اُن کے ہاتھوں میں معجزے تھے
وہ رات کو دن میں لانے والے کہاں گئے ہیں
سمجھ نہ آئے، وہ پیار تھا اُن کا یا حقارت؟
مجھے وہ سیفُو بُلانے والے کہاں گئے ہیں
سفیر نوتکی
No comments:
Post a Comment