میرے سفر کو میرے راستوں نے بانٹ لیا
میرا خیال بھی کچھ دوستوں نے بانٹ لیا
میں سنگ میل سرِ رہگزار منزل کا
قدم قدم پہ مجھے فاصلوں نے بانٹ لیا
یہ شیر مارا تو میں نے تھا آپ نے جنگل میں
مگر یہ کیا کیا کہ اسے ہرنیوں نے بانٹ لیا
وہ ساتھ ساتھ میرے کھا گئے اجالے بھی
اندھیرا بھی تو میرا ساحروں نے بانٹ لیا
اُگل اُگل کے انہیں تھک گیا سمندر جب
تمام لاشوں کو پھر ساحلوں نے بانٹ لیا
زمین پہ جتنے بھی تھے ضابطے وہ میرے تھے
میرا اثاثہ میرے دشمنوں نے بانٹ لیا
میں چاہتا تھا کہ ہو قتل میرے ہاتھوں مراد
میرا جنوں یہ میری وحشتوں نے بانٹ لیا
رحمان امجد مراد
No comments:
Post a Comment