خاموشی پر ایسی نہ ہو
ایسی جو قبرستان میں ہوتی ہے
خاموشی جو مجرم کے چہرے پر طاری ہوتی ہے
خاموشی پر ایسی ہو
جو وقتِ عبادت رُوح میں جاری ہوتی ہے
خاموشی جو گہرے سمندر اور جھیلوں میں ہوتی ہے
خاموشی جو آدھی رات کی قندیلوں میں ہوتی ہے
چاروں جانب شور بہت ہے
ہنگاموں کا زور بہت ہے
دل ہو یا شہروں کی سڑکیں
نفرت کے انگارے بھڑکیں
آہیں ہیں اور چیخیں ہیں
چیخ نہیں سرگوشی ہو، خاموشی ہو
خاموشی پر ویسی نہ ہو
خاموشی پر ایسی ہو
پروفیسر جاوید اقبال
No comments:
Post a Comment