Monday, 1 January 2024

اپنی خوشیاں تو خواب جیسی ہیں

 اپنی خوشیاں تو خواب جیسی ہیں

چار دن کے شباب جیسی ہیں

لبِ خاموش سے کچھ کہہ نہ سکیں

کرنیں وہ ماہتاب جیسی ہیں

جُھوٹے سپنے دکھا نہیں ان کو

جن کی آنکھیں کتاب جیسی ہیں

خاص ہے بات اُس کی آنکھوں میں

رت جگوں کے عذاب جیسی ہیں

لہجہ اُس کا ہے جس طرح خُوشبو

باتیں اُس کی شراب جیسی ہیں

نارسائی کا کرب کیا جانیں

سانسیں جن کی گُلاب جیسی ہیں

مانگنے سے جو ملا کرتی ہیں سحر

نعمتیں وہ حجاب جیسی ہیں


نرگس جمال سحر

No comments:

Post a Comment