اپنی خوشیاں تو خواب جیسی ہیں
چار دن کے شباب جیسی ہیں
لبِ خاموش سے کچھ کہہ نہ سکیں
کرنیں وہ ماہتاب جیسی ہیں
جُھوٹے سپنے دکھا نہیں ان کو
جن کی آنکھیں کتاب جیسی ہیں
خاص ہے بات اُس کی آنکھوں میں
رت جگوں کے عذاب جیسی ہیں
لہجہ اُس کا ہے جس طرح خُوشبو
باتیں اُس کی شراب جیسی ہیں
نارسائی کا کرب کیا جانیں
سانسیں جن کی گُلاب جیسی ہیں
مانگنے سے جو ملا کرتی ہیں سحر
نعمتیں وہ حجاب جیسی ہیں
نرگس جمال سحر
No comments:
Post a Comment