جب سرکشی کا کوئی کنارہ نہیں رہا
دیکھو ناں خواب کوئی ہمارا نہیں رہا
ہے اپنے جان جاناں سے صحبت چراغ کی
اپنا نصیب جلنا بھی پیارا نہیں رہا
گرتے ہیں مے کدہ میں فراموش خرد سے
اٹھتے ہیں جان کر کہ سہارا نہیں رہا
جیتے ہیں آرزو میں سرکتے جوان سال
مرنے کو رہگزر پہ گزارہ نہیں رہا
وہ انتظار زندگی سایل سراب تھا
باطل سی آنکھ میں جو نظارہ نہیں رہا
سایل بشیر وانی
سائل بشیر وانی
No comments:
Post a Comment