Friday, 12 January 2024

جب سرکشی کا کوئی کنارہ نہیں رہا

 جب سرکشی کا کوئی کنارہ نہیں رہا

دیکھو ناں خواب کوئی ہمارا نہیں رہا

ہے اپنے جان جاناں سے صحبت چراغ کی

اپنا نصیب جلنا بھی پیارا نہیں رہا

گرتے ہیں مے کدہ میں فراموش خرد سے

اٹھتے ہیں جان کر کہ سہارا نہیں رہا

جیتے ہیں آرزو میں سرکتے جوان سال

مرنے کو رہگزر پہ گزارہ نہیں رہا

وہ انتظار زندگی سایل سراب تھا

باطل سی آنکھ میں جو نظارہ نہیں رہا


سایل بشیر وانی

سائل بشیر وانی

No comments:

Post a Comment