Friday, 12 January 2024

اس پل دو پل کے ساتھ سے

 اس پل دو پل کے ساتھ سے

میں بکھر گیا تیرے ہاتھ سے

میرے دوستوں پہ ستم نہ کر

ہے تجھے گِلہ میری ذات سے

تیرے جانے کا جب یقیں ہُوا

میں اُجڑ گیا اُسی رات سے

تیرے ہاتھ سے جو مِلی مجھے

میں امر ہُوا اُسی مات سے

وہ تو جو بھی تھی میں بُھلا چُکا

تُو خفا ہے کیوں اُسی بات سے

تجھے ہائے عثماں بتاؤں کیا؟

کہ لُٹا ہوں تیری گھات سے


عثمان انیس

No comments:

Post a Comment