اس پل دو پل کے ساتھ سے
میں بکھر گیا تیرے ہاتھ سے
میرے دوستوں پہ ستم نہ کر
ہے تجھے گِلہ میری ذات سے
تیرے جانے کا جب یقیں ہُوا
میں اُجڑ گیا اُسی رات سے
تیرے ہاتھ سے جو مِلی مجھے
میں امر ہُوا اُسی مات سے
وہ تو جو بھی تھی میں بُھلا چُکا
تُو خفا ہے کیوں اُسی بات سے
تجھے ہائے عثماں بتاؤں کیا؟
کہ لُٹا ہوں تیری گھات سے
عثمان انیس
No comments:
Post a Comment