عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کس چیز کی کمی ہے مولیٰ تِری گلی میں
دُنیا تِری گلی میں عقبیٰ تری گلی میں
جام سفال اس کا تاجِ شہنشاہی ہو
آ جائے جو بھکاری داتا تری گلی میں
دیوانگی پے میری ہنستے ہیں عقل والے
تیری گلی کا رستہ پُوچھا تری گلی میں
اک آفتابِ وحدت ہے جلوہ بخش کثرت
نکلی ہوئی ہیں گلیاں صدہا تری گلی میں
ہے فیض کی تجلّی گہری اندھیریوں میں
بِکتا ہے رات ہی کو سودا تری گلی میں
سُورج تجلّیوں کا ہر دم چمک رہا ہے
دیکھا نہیں کسی دن سایہ تری گلی میں
موت اور حیات میری دونوں تِرے لیے ہیں
مرنا تِری گلی میں، جینا تری گلی میں
امجد کو آج تک ہم ادنیٰ پہلے کہیں تھے
لیکن مقام اس کا دیکھا تری گلی میں
امجد حیدرآبادی
سید احمد حسین
No comments:
Post a Comment