رُوٹھنا تو فقط بہانہ تھا
آپ کا ظرف آزمانا تھا
غیر کو پا کے مُجھ کو بُھول گیا
جس سے رشتہ مِرا پرانا تھا
میں اُسے یاد کر رہی تھی سدا
’ورنہ اُس نے تو بُھول جانا تھا‘
میں زمانے کے آگے آگے تھی
پیچھے پیچھے مِرے زمانہ تھا
اس کا میں اعتبار کیا کرتی
وہ حقیقت نہیں، فسانہ تھا
بُھول بیٹھی ہوں میں ہنسی اپنی
آپ کو یوں نہ مُسکرانا تھا
میں تعلّق نِبھاتی کیا اُس سے
رِشتۂ جان مگر نِبھانا تھا
میں بھی اُس پر یقین رکھتی تھی
خُود کا کھو کر تُجھی کو پانا تھا
جان دیتی نہ کیوں سحر اُس پر
اُس کا انداز دِلبرانہ تھا
بشریٰ سحر
No comments:
Post a Comment