حاکم شہر انا لگتی ہے
یہ تو صورت سے قضا لگتی ہے
ان بُتوں کو نہ دو الزام کوئی
ان کی ہر بات خُدا لگتی ہے
ماں کے قدموں میں جو جنت ٹھہری
اس کی جھڑکی بھی دُعا لگتی ہے
قتل معصوم اگر ہو تو مجھے
زندگی جیسے سزا لگتی ہے
بات ہوتی ہے سلیقے سے اگر
ناروا ہو تو روا لگتی ہے
گُل کھلانا ہے کہیں پر شاید
کتنی مسرور ہوا لگتی ہے
بے سبب ہو گئے دُنیا پہ فدا
یہ نہ سوچا کہ یہ کیا لگتی ہے
آئینہ دیکھ کے حیران ہوں میں
اپنی صُورت بھی جُدا لگتی ہے
ہے زمیں نظم کی مانند رقم
اپنے خالق کی ثناء لگتی ہے
انیس انور
No comments:
Post a Comment