خواہ مِری چِیخ بھی سُنائی دے
پِھر بھی تُو مطمئن دکھائی دے
آج زِندان نے کہا مجھ سے
یار مُجھ کو تو تُو رِہائی دے
میں نے اِک بار بھی پُکارا نہیں
کیوں مُجھے بارہا سُنائی دے
زندگی اِس طرح سے جینا تم
پھر یہ صدیوں تلک دُہائی دے
وہ مِرا اعتبار کرنے لگے
مجھ کو اِتنی تو پارسائی دے
اُس کے ہتھیار سے اُسے ماروں
سو مجھے ذوقِ بے وفائی دے
پہلے تئیس برس کے لمحے گِن
اِس مُشقّت کی پھر کمائی دے
سفیر نوتکی
No comments:
Post a Comment