عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ساری دنیا کو غمِ شہؑ میں رُلانے والا
چاند اُبھرا ہے عزا خانے سجانے والا
مرثیہ، تعزیہ، ماتم، یہ مجالس گھر گھر
کون ہے شہؑ کی عزاداری مِٹانے والا
مائیں غازیؑ کے علم پر یہ دُعا مانگتی ہیں
اِک پسر چاہیے پرچم کو اُٹھانے والا
ہم نے تہذیبِ عزا سے ہے تمدّن سیکھا
ایک مظلوم گھرانہ ہے سِکھانے والا
حُرؑ کے ماتھے پہ جو رومال تھا، لکھا تھا وہاں
درِ زہراؑ پہ جبیں اپنی جُھکانے والا
پھر تڑپنے لگے مقتل میں ہیں بے سر لاشے
کوئی ھل من کی صدا پھر ہے لگانے والا
مادرِ اصغرِؑ بے شِیر نہ بُھولے گی کبھی
خُود کو جُھولے سے تڑپ کر وہ گِرانے والا
اے سکینہؑ ذرا خاموش کہ مقتل میں ابھی
سو گیا ہے تجھے سینے پہ سُلانے والا
لشکرِ شام تیرا نام رہے گا دُشنام
خیمے سادات کے نخوت سے جلانے والا
ہیں رسن بستہ مگر پھر بھی خُدا کو سجدے
یہ تو دستور ہے نبیوں کے گھرانے والا
صوتِ داؤدؑ کا مالک ہے لقب دِین پناہ
سورۂ کہف کو نیزے پہ سنانے والا
نوحہ زینبؑ کا یہی شام میں گُونجا ہو گا
میرا غازیؑ ہے کہاں پردے بچانے والا
ہائے سجادؑ بندھے ہاتھوں لحد کھودتا ہے
اے سکینہؑ تیری میّت کو اُٹھانے والا
روک لے اپنا قلم، دل ہُوا محزون ارم
غم یہ وِرثہ میں مِلا ہے نہیں جانے والا
ارم اقبال نقوی
No comments:
Post a Comment