غم نگاہوں میں چُھپائے پسِ دیوار ملے
لوگ اس دور میں اپنے سے بھی بیزار ملے
تمتماتے ہوئے چہروں کے تجسّس میں ہمیں
ہر گُزر گاہ پہ بھیگے ہوئے رُخسار ملے
کوئی ایسا نہ تھا، جو درد کا سودا کرتا
سب تِرے شہر میں خُوشیوں خریدار ملے
زندگی تیرے تعاقب میں جہاں تک بھی گئے
ٹھوکریں ساتھ رہیں، مرحلے دُشوار ملے
خامشی چیخ رہی تھی پئے انصاف مگر
سب کے سب تیرے تکلّم کے طرفدار ملے
زندگانی کی کڑی دُھوپ میں چلتے چلتے
بیٹھ جاتے ہیں جہاں سایۂ دیوار ملے
ہم کہ افلاس کے قدموں سے ہیں روندے ہوئے لوگ
ہم غریبوں میں کہاں رفعتِ کردار ملے
حبیب ہاشمی
No comments:
Post a Comment