Saturday, 13 January 2024

شباب حسن عشق مرثیہ در مدح عباس

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت در مدح عباسؑ

شباب، حُسن، عشق (مرثیہ)

شباب

جذبہ دل کا ہے ممنون ریاضت کا شباب

وجہ الہام ہوا فہم و فراست کا شباب

دلبری میں نظر آتا ہے قیامت کا شباب

رخ ممدوح کا اک عکس ہے جنت کا شباب

کہاں لفظوں سے نمایاں ہوئی تنویر شباب

کب مصور سے بنائی گئی تصویر شباب

افق زیست پہ جس وقت نکلتا ہے شباب

حال و ماضی کے روایات بدلتا ہے شباب

زلزلے آتے ہیں جس راہ پہ چلتا ہے شباب

کہیں طاقت کے سنبھالے سے سنبھلتا ہے شباب

انقلابات کے چہروں پہ نکھر جاتا ہے

حادثے آئیں تو کچھ اور ابھر جاتا ہے

حُسن

حُسن کے دعوے میں ہے ایک دلیل محکم

اس کا ہلکا سا تبسم ہے کہ قندیل حرم

جن منازل میں ملے اس کے حسیں نقش قدم

سر جھکاتے ہیں وہیں اہل مؤدت پیہم

حُسن بھی دید کی منزل میں نکھر جاتا ہے

کیا بساط اپنی ہے موسیٰ کو بھی غش آتا ہے

حُسن کو نور کا بہتا ہوا دریا کہیے

منظر چشم تمنا کا سویرا کہیے

یا کسی پردہ نشیں کا رخ زیبا کہیے

مطلع فکر پہ بھی برق تجلی کہیے

حُسن پاکیزگی نفس کا اک نام بھی ہے

حُسن قدرت کا بشر کے لیے انعام بھی ہے

عشق

اے زہے عز و شرف کعبہ کا معمار ہے عشق

زیر خنجر بھی عبادات کا خریدار ہے عشق

ہو اگر دست مجاہد میں تو تلوار ہے عشق

حکم خالق ہو تو پھر صلح پہ تیار ہے عشق

عشق سردار بھی ہے اور سرِ دار بھی ہے

عشق سلمانؓ بھی ہے اور میثم تمارؓ بھی ہے

عشق آدمؑ کا شرف، نوحؑ کے طوفان سے پناہ

عشق یعقوبؑ کی تجدید بصارت کا گواہ

عشق یوسفؑ کا جمال اور زلیخا کی نگاہ

عشق معبود کی معراج ہے، انا للہ

عشق کا نقش جبیں تُربت بے شیر میں ہے

عشق کی آخری حد سجدۂ شبیرؑ میں ہے

اور اب حضرت علی اکبرؑ کی طرف گریز

حسن اور عشق و جوانی کا فسانہ سن کر

ان پہ پڑنے لگی تاریخ ہدایت کی نظر

فیصلہ ہو نہ سکا کون ہے کس سے بہتر

سرنگوں ہو گئے سوچ کے سب جن و بشر

آئی آواز کہ تم سب ہو برابر کے شریک

روز ازل سے ہو انساں کے مقدر کے شریک

حسن مبدا سے چلا جانب مرکز پہنچا

لے کے انگڑائی رگ جاں سے شباب آ نکلا

عشق قربانی و ایثار پہ تیار ہوا

مل گئے سب تو سراپا علی اکبرؑ کا بنا

حُسن نے اور جوانی نے سنوارا ان کو

جذبۂ عشق نے ہر طرح نکھارا ان کو

اس کی ایک ایک ادا میں تھا رسولوں کا جلال

حُسن سے اس کے حُسن ازل کا تھا کمال

صدقے ہوتا تھا یہاں حضرت یوسفؑ کا جمال

حشر تک اب نہیں ملنے کی کہیں اس کی مثال

علی اکبرؑ تھے حقیقت میں پیمبر کا جواب

اب نہیں ہے کہیں اس حُسن کے پیکر کا جواب

دل شبیرؑ سے پوچھو علی اکبرؑ کا شباب

جان گُلشن کی ہو جس طرح گُلِ تر کا شباب

ماں کی نظروں سے نہ بُھولا گیا دلبر کا شباب

جس نے دیکھا کہا اس نے ہے پیمبرؐ کا شباب

گھر میں چلتا تو پیمبرﷺ کی طرح چلتا تھا

رن میں آ جائے تو حیدرؑ کی طرح چلتا تھا

اسی اکبرؑ کو کہا جاتا ہے زینبؑ کا جگر

یہ جواں حضرت شبیرؑ کا ہے نُور نظر

اس کی آنکھوں میں ہے سمٹا ہوا حُسن گُل تر

مطلع آلؑ محمدﷺ کا ہے روشن یہ قمر

دیکھنے والوں کی آنکھوں میں محبت آئی

سال اٹھارواں آیا تو قیامت آئی


قائم جعفری

سید محمود علی

No comments:

Post a Comment