بہت دُور ساحل ہے ابھی تک
کہ طُوفان حائل ہے ابھی تک
سخی ہے تُو مگر شکوہ کُناں ہے
جو خالی ہاتھ سائل ہے ابھی تک
مِرے جو ہمسفر تھے مر گئے کیا؟
کہ زندہ میرا قاتل ہے ابھی تک
ہمیں لُوٹا ہے جس نے ایک مُدت
ہماری صف میں شامل ہے ابھی تک
کھلونوں سے بہل جاتا ہے گویا
مِرا بچپن کا دل ہے ابھی تک
یہ غفلت بھی تو اپنی ہے کہ عابد
ہمارا حق بھی باطل ہے ابھی تک
عابد علی خاکسار
No comments:
Post a Comment