سُورج اُگا تو زندگی کی شام ہو گئی
اب صُبح نو بھی موت کا پیغام ہو گئی
دل میں سما گئیں وہ زمانے کی نفرتیں
مہر و وفا بھی آخرش بدنام ہو گئی
انسان سارے مسجد و مندر میں بٹ گئے
انسانیت اس دور میں ناکام ہو گئی
زیتون کی جو شاخ اُٹھائے تھا ہاتھ میں
گردن قلم اُسی کی سرِ عام ہو گئی
افشاں کہاں سے لائیں وہ اسلاف کا خلوص
تاریخ کی کتاب ہی نیلام ہو گئی
ارجمند بانو افشاں
No comments:
Post a Comment