Saturday 20 January 2024

کچھ کمی تو جہد آزادی میں ایسی رہ گئی

 کچھ کمی تو جہدِ آزادی میں ایسی رہ گئی

جو مِرے پاؤں میں یہ زنجیر اُلجھی رہ گئی

میرے اس کے درمیاں کھینچی گئی خونی لکیر

میں تڑپتا رہ گیا، اور وہ سسکتی رہ گئی

باڑ کے نزدیک مت جاؤ وہاں بارود ہے

ایک ممتا اپنے شہزادے سے کہتی رہ گئی

کوئی گولی آ لگی پھر سینۂ معصوم میں

ہاتھ میں لقمہ رہا اور آدھی روٹی رہ گئی

فرش پر بکھرے قلم، بستے، دوات اور پُھول ہیں

ہاں مگر ہاتھوں میں مضبوطی سے تختی رہ گئی

اے خدا! ان ماؤں اور بہنوں کے نوحے سُن ذرا

جن کے بس میں صرف بین اور آہ و زاری رہ گئی


سید جواد حاشر

No comments:

Post a Comment