حسِیں یہ زِندگانی ہو رہی ہے
وہ اب میری کہانی ہو رہی ہے
شعورِ گُفتگو جن کو نہیں ہے
اُنہیں کی راجدھانی ہو رہی ہے
ہے سر پہ بوجھ میرے پورے گھر کا
فنا میری جوانی ہو رہی ہے
چُھپا رکھا ہے اپنا عشق ہم نے
یہ کیسی راز دانی ہو رہی ہے
چراغِ سحری ہوتا جا رہا ہوں
کہ لو بھی آنی جانی ہو رہی ہے
خرم یاسین
No comments:
Post a Comment