Wednesday 17 January 2024

دیوار پہ بیٹھا رہوں پر باندھ کے اپنے

دِیوار پہ بیٹھا رہوں پر باندھ کے اپنے

جِیتا ہے کوئی دستِ ہُنر باندھ کے اپنے

اغیار کا لشکر تھا مگر پِچھلی صفوں سے

شمشیر بکف آئے کمر باندھ کے اپنے

مندر کا سہارا تو پُجاری کا دِیا ہے

تُو لے جا بھلے شمس و قمر باندھ کے اپنے

مِلتے ہیں کہیں رات کی رانی سے لِپٹ کے

کچھ سانپ بھی شاخوں سے بھنور باندھ کے اپنے

تُو سنگ اُچھالے گا، مگر تیری گلی میں

آ جائیں گے ہم زخمِ جگر باندھ کے اپنے

اک روز تِرے در سے چلے جائیں گے واپس

ہم خاک بسر رختِ سفر باندھ کے اپنے


فخر ولیم لالہ

No comments:

Post a Comment