میں تو وعدہ وفا کا نبھاتا رہا
وہ ستم پر ستم مجھ پہ ڈھاتا رہا
ہجر کا جشن ایسے مناتا رہا
نام لکھ لکھ کے تیرا مٹاتا رہا
ہر قدم پر ہوئی آزمائش کڑی
ہر کوئی بس مجھے آزماتا رہا
اس کو آئے نہ شاید مِری یاد بھی
ہر طرف وہ نظر مجھ کو آتا رہا
وصل کی رات میں اس کے دیدار کو
اک جھلک کے لیے دل جلاتا رہا
مختصر رُوٹھنے پر تِرے جانِ جاں
میں غزل سے غزل کو مناتا رہا
روزانہ اے عابد! خدا کی قسم
بے وفا کو وفا میں سِکھاتا رہا
عابد نواب سہارنپوری
No comments:
Post a Comment