Wednesday 17 January 2024

میں تو وعدہ وفا کا نبھاتا رہا

 میں تو وعدہ وفا کا نبھاتا رہا

وہ ستم پر ستم مجھ پہ ڈھاتا رہا

ہجر کا جشن ایسے مناتا رہا

نام لکھ لکھ کے تیرا مٹاتا رہا

ہر قدم پر ہوئی آزمائش کڑی

ہر کوئی بس مجھے آزماتا رہا

اس کو آئے نہ شاید مِری یاد بھی

ہر طرف وہ نظر مجھ کو آتا رہا

وصل کی رات میں اس کے دیدار کو

اک جھلک کے لیے دل جلاتا رہا

مختصر رُوٹھنے پر تِرے جانِ جاں

میں غزل سے غزل کو مناتا رہا

روزانہ اے عابد! خدا کی قسم

بے وفا کو وفا میں سِکھاتا رہا


عابد نواب سہارنپوری

No comments:

Post a Comment