عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
حضوری کے تصور ہی سے روشن دل ہمارا ہے
یہی روشن تصور کائناتی استعارہ ہے
ہر اک مشکل گھڑی میں زیست کی ان کو پُکارا ہے
مجھے تو دو جہاں میں ایک ان کا ہی سہارا ہے
بوقت مرگ ان کا نور روشن قبر کو کر دے
فقط اس آس پر تیرگی جاں کو گوارا ہے
یہ دل کا تنگ دروازہ اسی دستک ہی کُھل جائے
کوئی کہہ دے؛ چلو، تم کو مدینے کا اشارہ ہے
یہی کافی ہے مِل جائے محبت اس گھرانے کی
سوا اس کے جہاں میں بس خسارہ ہی خسارہ ہے
میں امکانات کی دُنیا میں حیرت کی مسافروں ہوں
مکاں یا لا مکاں ہو، ان کی رفعت کا اشارہ ہے
نگاہے کور ان کے نامِ نامی سے چمکتی ہے
سماعت کو تو اک اسم مبارکؐ ہی سہارا ہے
تنظیم الفردوس
No comments:
Post a Comment