Monday, 16 June 2025

کیا روز و شب ہمارے سنور کر بھی آئیں گے

 کیا روز و شب ہمارے سنور کر بھی آئیں گے

گزرے ہوئے وہ لمحے میسر بھی آئیں گے

کہہ دو کہ ہوشیار رہیں رہروانِ شوق

راہِ وفا میں سینکڑوں پتھر بھی آئیں گے

ڈوبے ہوئے ہیں خوابِ گراں میں ابھی تو لوگ

آنکھیں کُھلیں تو سامنے منظر بھی آئیں گے

ایامِ رفتہ کی ہمیں جب یاد آئے گی

شکوے تِری جفا کے زباں پر بھی آئیں گے

تہذیبِ نو کی شمع جلانے کے واسطے

کچھ لوگ اپنا ذہن سجا کر بھی آئیں گے

برباد زندگی کا تصور لیے ہوئے

اکثر سُلگتی شام کے منظر بھی آئیں گے

منزل کی سمت جا تو رہے ہو مگر کلیم

راہوں میں کچھ عمیق سمندر بھی آئیں گے


کلیم سرونجی

No comments:

Post a Comment