Sunday, 22 June 2025

بنی چراغ سے لو، لو سے دل بنایا گیا

 بنی چراغ سے لو، لو سے دل بنایا گیا

پھر اس کو لا کے ہواؤں میں آزمایا گیا

مِرے زوال کو کوئی جواز چاہیے تھا

مجھے جھکانا تھا سو آسماں جھکایا گیا

حصار طاق میں رکھے ہوئے چراغوں سے 

میں اک چراغِ سرِ رہگزر جلایا گیا 

تِری طرح تِری گلیاں بھی اجنبی ہی رہیں 

ہزار بار انہیں گلیوں سے ہوں میں آیا گیا 

تِرے جمال کو تصویر کر سکا نہ کوئی 

یہی وہ وقت تھا جب آئینہ بنایا گیا

گِلہ تو یہ ہے نئے شہر کے مکینوں سے

مکاں جو گِرتے نہیں تھے انہیں گرایا گیا

جنوں کے باب میں فیصل کی داستان کے بعد 

کہیں بھی قیس کا قصہ نہیں سنایا گیا


فیصل طفیل

No comments:

Post a Comment