Saturday, 21 June 2025

ایسی وسعت کہ چمکتے ہیں ستارے دل میں

 ایسی وسعت کہ چمکتے ہیں ستارے دل میں

اس کو رہنا ہی نہیں آیا ہمارے دل میں

سب نے آ آ کے مرا ذہنی توازن چھیڑا

لوگ جو جو بھی محبت سے اتارے دل میں

تو نے کیا جرم کیا ہوگا جو میں رہتا رہا

اتنا عرصہ مرے چندا ترے پیارے دل میں

تیرا رونا ترے کچھ کام نہیں آئے گا دوست

سبز بتی پہ نہیں کھلتے اشارے دل میں

اس کی آنکھوں سے جو دیکھے تھے انہی خوابوں نے

آج کل آگ لگا رکھی ہے سارے دل میں

کوئی دو چار نئے زخم کہ رش پڑ جائے

صرف اک ڈر رہا کرتا ہے بے چارے دل میں

سچے دل والی مرے حجرے میں رہتی ہے حضور

میٹھے پانی کا کنواں ہے مرے کھارے دل میں

میرا اللہ مرے ساتھ ہے وہ جانتی ہے

اس نے ڈرتے ہوئے چلوائے ہیں آرے دل میں


ابراہیم حماد

No comments:

Post a Comment